1 y ·Translate

ابو ڈھونڈتی قوم!!

تحریر: ڈاکٹر حفیظ الحسن

قومیں شناخت سے بنتی ہیں۔ ایسے نہیں کہ کسی کا پردادا عربی تھا تو کسی کا ترک۔۔۔ ملکیت کا احساس تب ہی آتا ہے جب آپکو اپنی تاریخ ، اپنے کلچر اور اپنی تہذیب کا پتہ اور اس پر فخر ہو۔ آپ گلی میں کوڑا کرکٹ کیوں پھینکتے ہیں جبکہ گھر کو کیوں صاف رکھتے ہیں؟ اس لیے کہ گھر پر آپکو اسکی ملکیت کا احساس ہے۔ یہی حال قوموں کا ہے۔
نیشن بلڈنگ پراسس یا کسی قوم کے بننے میں سب سے اہم چیز اُسکی شناخت ہے۔ یہ شناخت کیسے آتی ہے؟ اپنی قوم، اپنی زبان، اپنے کلچر کو جان کر۔۔

انگریزوں نے اور اس سے پہلے آئے حکمرانوں نے سب سے پہلے جو چیز آپ سے چھینی وہ آپکی شناخت تھی۔ کبھی کسی اونچے ہوٹل کے باہر دربان کو دیکھا ہے؟ یا پاکستان کی نیشنل اسمبلی میں فائلیں ادھر ادھر کرتے منشی لوگوں کو۔۔ ان سب نے آپ ہی کا قومی لباس پہنا ہوتا ہے اور اس طرح کی نچلے لیول کی نوکریاں کر رہے ہوتے ہیں۔ مگر کیا مجال کہ آپ نے یا کسی اور کدو نے اس پر سوچا ہو۔ سی ایس ایس پاس "اعلی دماغ" بھی اس پر نہیں سوچ پاتے تو آپ نے کیا سوچنا ہے۔

گاؤں میں چودھری کُلے، پگ پہنتے تھے، وہی لباس آپ نے ہوٹلوں کے باہر دربانوں کو پہنا دیا۔ آپ نے کیا ، انگریزوں نے جنہوں نے 25 ہزار ہو کر کروڑوں لوگوں پر حکومت کی۔

اچھا یہ چھوڑیں، کبھی یہ سوچا ہے کہ باہر کے ممالک میں جب احتجاج ہوتے ہیں تو وہ دکانوں کو آگ اور عوامی مقامات کا جلاؤ گھیراؤ کیوں نہیں کرتے جب کہ ہمارے ہاں سب سے پہلے بسوں، تھانوں اور سرکاری عمارتوں کو نذرِ آتش کیا جاتا ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟ کیا آپ جاہلِ مطلق پیدا ہوئے ہیں یا اس عمومی جاہلوں والے رویے کے پیچھے کوئی منطق ہے؟

اسکا جواب یہ ہے۔
انگریزوں کے دور میں جب حکومت انگریزوں کی تھی تو اُنکے خلاف احتجاج پر اگر اُنکی سرکار کی بنائی عمارتوں اور مقامات کو نقصان پہنچایا جاتا تو یہ دراصل بلواسطہ ایک قابض حکومت کا نقصان تھا۔ لیکن وہ کب کے جا چکے گئے البتہ چونکہ ملکیت کا احساس اور قوم نہیں چوں چوں کا مربہ بنے لوگ رہ گئے لہذا آج بھی بغیر سوچے سمجھے پروگامڈ روبوٹس کی طرح وہی روش اپنائے ہوئے ہیں۔

کسی روز ٹھنڈی لسی کا گلاس ڈک کر تاریخ کنگھالیں ۔ بہت سی چیزوں کی سمجھ آ جائے گی۔ یہ جو کبھی عربی لکڑ دادے، افغان پر دادے یا ترک مامے نکل رہے ہوتے ہیں ناں، یہ سب اسی وجہ سے ہیں کہ آپکو اپنے ملک، اپنی قوم اور اپنے کلچر کا ککھ پتہ نہیں، چودہ اگست پر موٹر سائیکلوں کے سائلنسر، واہیات توتے باجے، اونچے اونچے جھنڈوں، سر عام۔لڑکیوں کو چھیڑنے اور غیر اخلاقی اور اوٹ پٹانگ حرکتیں کر کے تو آپ آزادی مانتے ہیں۔ کیا المیہ ہے کہ قوم کو خوشی منانے تک کا ڈھنگ نہیں آتا۔ خوبصورت موسیقی ، تہذیب، میلے ٹھیلے، سب جس قوم سے چھن جائیں تو پیچھے یہی بکواسیات بچ جاتی ہیں۔

شناخت پر اتنی شرمندگی کہ مادری زبانوں میں بات کرتے تو آپکی عزت جاتی ہے۔ پاکستان کی سب سے زیادہ بولی جانی والی زبان پنچابی کسی مہذب جگہ پر بیٹھ کر بولنے والے کو جاہل سمجھا جاتا ہے، بچوں کو مادری زبان میں پڑھانا تو کجا بولنا بھی آپ کے نزدیک غلط ہے۔ اور یہ زبان محض ماں بہن کی گالیوں کے لیے رہ گئی ہے۔ باقی زبانوں کا بھی کم و بیش یہی حال ہے۔

سو نہ تعلیم صحیح ہو رہی ہے نہ تربیت۔ اصل سوچ کا فقدان۔ جو وراثت میں دادے کو ملا، پوتا بھی وہی لیکر چھلانگیں مار رہا ہے۔ شناخت مٹ چکی ہے۔ اس لیے ہر کوئی برِ صغیر سے ہزاروں میل دو کہیں وسط ایشیا میں تو کہیں شام ترکی، میں ابو ڈھونڈنے میں لگا ہے۔

اقبال کہتا تھا:

اپنی دنیا آپ پیدا کر اگر زندوں میں ہے

سر آدم ہے ضمیر کن فکاں ہے زندگی

#ڈاکٹر_حفیظ_الحسن

image