اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں رخ ہواؤں کا جدھر کا ہے ادھرکے ہم ہیں وقت کے ساتھ ہے مٹی کا سفر صدیوں سے کس کو معلوم ہے کہاں کے ہیں کدھر کے ہم ہیں چلتے رہتے ہیں کہ چلنا ہے مسافر کا نصیب سوچتے رہتے ہیں کس راہ گزر کے ہم ہیں (ندا فاضلی) یہ کل شام کا خوبصورت منظر ہے ۔ پہاڑوں کے دامن میں ضلع بٹگرام کا یہ ٹکڑا شب کی تاریکی سے پہلے مجھ پر بجلیاں گرا رہا تھا۔ سبز گندم اور سرسوں کے لہلہاتے کھیت وجہ سکون جاں بن رہے تھے اور میں وقت کی دقت کے باوجود بھی ایک لمحے کیلئے جم سا گیا تھا۔
Sang Rougee
댓글 삭제
이 댓글을 삭제하시겠습니까?
Majid Khan
댓글 삭제
이 댓글을 삭제하시겠습니까?